Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

اسلام میں معذوروں کے حقوق و سلوک

ماہنامہ عبقری - اگست 2015ء

ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ جن کی بینائی میں نقص تھا اور کچھ ذہن بھی متاثر تھا وہ خریدو فروخت میں اکثر دھوکہ کھاجاتے تھے‘ آپ ﷺ نے ان کی اور ان جیسے افراد کی خاطر، خریدو فروخت میں خیارِشرط مشروع فرمایا: جس کی رو سے بیچنے والے یاخریدنے والے کو بیع کی قطعیت کیلئے تین دن کی مہلت مل جاتی تھی۔

انسانی معاشرے کا وہ حصہ جسے مادہ پرستی کے اس دور میں نظرانداز کردیا گیا ہے‘ ’’معذورین‘‘ کے عنوان سے جانا جاتا ہے‘ سماج کے اس طبقہ میں وہ افراد شامل سمجھے جاتے ہیں جو رفتار زمانہ اور زندگی کی دوڑ میں اپنی طبعی دائمی اور پیدائشی مجبوریوں کی بنا پر پیچھےرہ گئے ہوں۔ بینائی، شنوائی سے محروم‘ بے دست و پادماغی طور پر مفلوج‘ دائمی روگ میں مبتلا افراد عام طور پر اس میں داخل مانے جاتے ہیں۔
یوں تو دنیا بھر میں ان کے تعلق سے ہمدردی کی لہر چل پڑی ہے‘ ایک عالمی ادارہ باقاعدہ طور پر ان کا نگراں سمجھا جاتا ہے تاہم یہ حقیقت ہے کہ سماج کا یہ طبقہ جس قدر ہمدردی اور توجہ کا مستحق ہے فی الحال عملی طور پر محرومی کےشکوہ سے دوچار ہے۔ ان حضرات کا قضیہ وقتی عبوری اقدامات سے حل نہیں ہوسکتا‘ ان کے مستقل حل کیلئے مضبوط حکمت عملی اور بڑے دیرپا اقدامات ناگزیر ہیں۔ ویسے تومعذورین کے تعلق سے جذبہ ترحم انسانی فطرت کا تقاضا اور لازمہ ہے لیکن صرف اسلام نے اس جذبہ کو صحیح رخ دیا ہے‘ معذورین کے مختلف حقوق و مراعات وضاحت کے ساتھ بیان کیے ہیں‘ قانون اسلامی کا ایک معتدبہ حصہ ان کےحقوق سے متعلق مختص کردیا گیا ہے۔ ذیل میں اسلامی نقطہ نظر سے معذورین کے معاشی معاشرتی مذہبی اور سیاسی وحربی حقوق ومراعات پر قدرے تفصیل کے ساتھ گفتگو کی جاتی ہے۔
معاشی حقوق ومراعات:اسلام نے معذور افراد پر کسی طرح کا معاشی بار نہیں رکھا ہے‘ کسب معاش کی الجھنوں سے انہیں آزاد رکھا ہے۔ وہ تمام قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ جن میں کمزوروں‘ بے سہاروں کے ساتھ حسن سلوک اور ان پر انفاق کی تلقین کی گئی ہے‘ معذورین بھی ان کے مفہوم میں داخل ہیں۔ کتب فقہ میں نفقہ اقارب کے عنوان سے بکھری پڑی ہیں‘ ان کا حاصل بھی یہی ہے کہ ان معذورین کے معاش و زیست میں تعاون ہو۔ علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ نفقہ اقارب کے وجوب (بعض رشتہ داروں کے نفقہ کا بعض رشتہ داروں پر وجوب) کی ایک نہایت ہی اہم اور بنیادی شرط کی وضاحت فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:’’خاندان کے کچھ مفلس رشتہ دار‘ اپاہج و لاچار ہوں یا معذور و مفلوج ہوں یا مجنون و اندھے پن کا شکار ہوں تو ان کا نفقہ معبود ترتیب فقہی کے اعتبار سے خاندان کے دیگر صحیح الاعضاء متمول رشتہ داورں پر واجب ہوتا ہے۔ (بدائع الصنائع446/4 ) معذورین کے حقوق کی یہ رعایت خاندانی سطح سے تھی‘ اسلامی دور درخشاں میں حکومتی سطح پر معذورین کی نگرانی اور دیکھ بھال کا جو نظم تھا وہ حد درجہ بے مثال اور قابل رشک تھا۔ علامہ شبلی رحمۃ اللہ علیہ ’’الفاروق‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے زمانے میں) عام حکم تھا اور اس کی ہمیشہ تعمیل ہوتی تھی کہ ملک کے جس قدر اپاہج، اذکار رفتہ‘ مفلوج وغیرہ ہوں سب کی تنخواہیں‘ بیت المال سے مقرر کردی جائیں۔ لاکھوں سے متجاوز آدمی فوجی دفتر میں داخل تھے جن کو گھر بیٹھے خوراک ملتی تھی،بلاتخصیص مذہب حکم تھا کہ بیت المال سے ان کے روزینے مقرر کردئیے جائیں۔‘‘ (الفاروق: 197,196/2)
غرض حکومتی سطح پر جو معاشی مراعات مسلم معذورین کو حاصل تھیں‘ پوری رواداری کے ساتھ غیرمسلم معذور رعایا بھی نفع اندوز ہوتی تھی‘ ایک اور مقام پر علامہ موصوف رقم طراز ہیں: ’’یہ جو قاعدہ تھا کہ جو مسلمان اپاہج اور ضعیف ہوجاتا تھا اور محنت و مزدوری سے معاش نہیں پیدا کرسکتا تھا‘ بیت المال سے اس کا وظیفہ مقرر ہوجاتا تھا۔ اسی قسم کی‘ بلکہ اس سے زیادہ فیاضانہ رعایت ذمیوں کے ساتھ بھی تھی۔‘‘ (الفاروق:157/2)
سید قطب شہید مرحوم تحریر فرماتے ہیں: ’’حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے ایک بوڑھے نابینا کو ایک دروازے پر بھیک مانگتے دیکھا، دریافت کرنے پرمعلوم ہوا کہ وہ یہودی ہے‘ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اس سےپوچھا: تمہیں کس چیز نے اس حالت تک پہنچایا؟ اس نے جواب دیا: جزیہ‘ ضرورت اور بڑھاپا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لےگئے اور اتنا کچھ دیا کہ اس وقت کی ضروریات کے لیے کافی تھا۔ پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے بیت المال کے خزانچی کو کہلا بھیجا کہ اس شخص اور اس جیسے دوسرے اشخاص کی طرف توجہ کرو‘ خدا کی قسم یہ انصاف کی بات نہیں کہ ہم اس کی جوانی کی کمائی کھائیں اور بڑھاپے میں اسے دھتکار دیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اس فرد اور اس جیسے دوسرے افراد کو جزیہ سے بری قرار دے دیا۔ جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے دمشق کا سفر کیا تو ایک بستی سے گزرے جہاں کچھ جذام کے مریض عیسائی بستے تھے‘ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے حکم دیا کہ ان کو زکوٰۃ کی مد سے امداد دی جائے اور ان کیلئے راشن جاری کیے جائیں۔‘‘ (العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام، اردو:378)
ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ جن کی بینائی میں نقص تھا اور کچھ ذہن بھی متاثر تھا وہ خریدو فروخت میں اکثر دھوکہ کھاجاتے تھے‘ آپ ﷺ نے ان کی اور ان جیسے افراد کی خاطر، خریدو فروخت میں خیارِشرط مشروع فرمایا: جس کی رو سے بیچنے والے یاخریدنے والے کو بیع کی قطعیت کیلئے تین دن کی مہلت مل جاتی تھی۔ (تکملہ فتح الملہم:.382,378 )
معاشرتی حقوق و مراعات: اسلام نے معذور افراد کو الگ تھلگ کسمپرسی کی زندگی گزارنے کے بجائے اجتماعی معاشرتی کا حوصلہ دیا، ان کے مقام و مرتبہ کے مناسب معاشرتی کام بھی تفویض کیے‘ احساس کمتری اور معاشرتی سردمہری کا شکار بننے سے ان کو تحفظ فراہم کیا۔ عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ایک نابینا صحابی تھے۔ ایک دفعہ وہ بغرض دریافت مسئلہ بارگاہ اقدس ﷺ میں ایک ایسے وقت حاضر ہوئے جب کہ آپ ﷺ بعض اعیان قریش سے اسلام پر گفتگو فرمارہے تھے آپ ﷺ کو ان کا یہ بے وقت سوال پوچھنا ناگوار ہوا۔ بس اتنا ہونا تھا کہ سورۂ عبس کا نزول ہوا‘ جس میں آپ ﷺ پر اس رویہ کے تعلق سے ہلکا سا عتاب کیاگیا۔ روایات میں ہے کہ اس کے بعد جب وہ نابینا آپ ﷺ کی خدمت میں آتے تو آپ ﷺ بہت تعظیم و تکریم سے پیش آتے اور فرماتے: خوش آمدید! اے وہ ساتھی! جس کے بارے میں پروردگار نے مجھے تنبیہہ فرمائی۔
رسول پاک ﷺ جب غزوہ احد کیلئے روانہ ہوئے تو اپنی جگہ انہی نابینا ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو اپنا نائب فرمایا۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ہشام: 17/3)غور کیجئے! کتنا بڑا منصب ایک نابینا شخصیت کے سپرد کیا جارہا ہے اور تو اور ایک جذامی آدمی کو آپ ﷺ نے اپنے کھانے میں شریک فرمایا ہے۔ (تکملہ فتح الملہم: 372/4) )
سعید بن یربوع رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ایک صحابی تھے جن کی آنکھیں جاتی رہی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے ان سے کہا کہ آپ جمعہ میں کیوں نہیں آتے؟ انہوں نے کہا: میرے پاس آدمی نہیں کہ مجھ کو راستہ بتائے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے ایک آدمی مقرر کردیا جو ان کے ساتھ رہتا تھا۔ (الفاروق‘: 205/2) حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی خلافت کے زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ مدینہ کی ایک اندھی عورت کی خبرگیری کیا کرتے تھے‘ پھر ایسا ہونے لگا کہ جب بھی آپ پہنچتے، یہ دیکھتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ آکر اس کے کام کرجاتے ہیں۔ (اسلام میں عدل اجتماعی، قطب شہیدؒ:382)مذہبی حقوق و مراعات: بہت سی عبادات جو جسمانی تعصب و مشقت کی متقاضی ہیں‘ اسلام نے معذور حضرات کو یا تو ان سے بالکلیہ مستثنیٰ رکھا ہے یا پھر ان کا متبادل تجویز کیا ہے۔ جمعہ و جماعات کی لازمی حاضری سے معذور حضرات مستثنیٰ ہیں۔ مال دار ہوں‘ مگر اپاہج و لاچار ہوں تو عبادت، حج میں، حج بدل اور روزہ میں فدیہ کی شکل رکھی گئی ہے‘ جہاد جیسی عظیم عبادت سے بھی یہ حضرات مستثنیٰ ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اندھے پر کوئی حرج نہیں ہے اورنہ لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ بیمار پر کوئی حرج ہے۔‘‘ (الفتح17) بصارت سے محرومی اور لنگڑے پن کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذوری ہے‘ یہ دونوں عذر تو لازمی ہیں‘ ان اصحاب عذر یا ان جیسے دیگر معذورین کو جہاد سے مستثنیٰ کردیا گیا‘ حد تو یہ کہ یہ معذور حضرات جو اپنی معذوری کے برابر اجرو ثواب کا وعدہ گھر بیٹھے حاصل ہے۔ غزوہ تبوک کے موقع سے آپ ﷺ نے معذورین کے بارے میں جہاد میں شریک لوگوں سے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ تمہارے پیچھے مدینہ کے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ تم جس وادی کو بھی طے کرتے ہو اور جس راستے پر بھی چلتے ہو تمہارے ساتھ وہ اجر میں برابر کے شریک ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا: یہ کیونکر ہوسکتا ہے جبکہ وہ مدینہ میں بیٹھے ہیں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’عذر نے ان کو وہاں روک دیا ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد) سیاسی و حربی حقوق و مراعات: اسلام سے قبل جنگ میں مقاتلین اور غیرمقاتلین کے درمیان کوئی امتیاز نہ تھا‘ دشمن قوم کے ہر فرد کو دشمن سمجھا جاتا تھا اور اعمال جنگ کا دائرہ تمام طبقوں اور جماعتوں پر یکساں محیط تھا۔ عورتیں‘ بوڑھے‘ بیمار‘ زخمی کوئی بھی اس ہمہ گیر دست درازی سے مستثنیٰ نہ تھا۔ (الجہاد فی الاسلام 198) (بشکریہ ختم نبوت)

Ubqari Magazine Rated 5 / 5 based on 890 reviews.